تحرير و عکاسی : سردار سعید احمد
مور کو خوبصورتی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور بلاشبہ یہ قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے جسے شاعر ، مصنف اور مصور اپنے فن کی زینت بناتے چلے آئے ہیں۔ پاکستان کے تھرپارکر میں جہاں قدرت اور فطرت کے حسین رنگ موجود ہیں وہاں یہ جنگلی مور اس صحرا کی خوبصورتی میں چاند کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ تھرپارکر میں جنگلی مور بلا خوف و خطر آزاد گھومتے نظر آتے ہیں کیونکہ وہاں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت آباد ہے اور ہندو مذہب میں مور کو مقدس سمجھا جاتا ہے ۔
نر اور مادہ دونوں کے سر پر ایک خوبصورت تاج ہوتا ہے جبکہ نر اپنی انتہائی خوبصورت دم (جسکی لمبائی دو میٹر تک ہوتی ہے) کو رومانوی لمحات میں پھیلا کر دلفریب رقص پیش کرتاہے تاکہ مادہ کی قربت حاصل کرسکے۔ ایک بالغ عمر کے نر مور کا سر، گردن اور سینا نیلے رنگ کا ہوتا ہے جس میں سنہری اور سبز چمک پیدا ہوتی ہے جبکہ مادہ کی رنگت نر کے مقابلے میں کافی پھیکی لگتی ہے۔ نر کی دم رقص کرتے ہوئے پنکھے کی شکل اختیار کرلیتی ہے جس میں آنکھ نما شبہی نمایا ہوتی ہے۔ افزائش کے موسم میں ایک نر اپنے ساتھ تین سے چار مادائوں کو رکھتا ہے جسے اس نر کا حرم کہا جاتا ہے۔ موروں کا افزائشی موسم اپريل اور مئی کا مہینہ ہے جس میں مادہ 4 سے 6 انڈے دیتی ہے اور اس کے بعد اگلے 28 دنوں میں ایک نئی نسل کا وجوه ہوتا ہے۔
پاکستان کے قومی جانور مارخور کی طرح مور کو بھی سانپ مار کر کھا جانے میں شہرت حاصل ہے اسکے علاوه اسکی خوراک میں روٹی کے ٹکرے ، مختلف اقسام کے بیج ، چھپکلیاں، مینڈک اور حشرات شامل ہیں۔
نر مور اپنے خوبصورت پروں کو ہر سال اگست اور ستمبرکے مہینے میں تبدیل کرتے ہیں جو تھرپارکر کی غریب عوام کیلئے قلیل آمدنی کا زریعہ ہوتی ہے۔ ان پروں کو گھروں کی تزئین و آرائش میں استعمال کیا جاتا ہے اور اکثر مسلمان ان پروں کو مقدس اوراق میں بھی رکھتے ہیں۔
ویسے تو ان موروں کو تھرپارکر میں اپنی بقا کا کوئی خطرہ نہیں مگر پچھلے کچھ سالوں میں ایک خاص بیماری جسے New Castle Disease یا رانی کھیت کہتے ہیں پائی گئی ہے جسکی وجہ سے لاتعداد مور اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ اس کے علاوه موروں کی غیرقانونی خریدو فروخت بھی انکی بقا کیلئے ایک خطرہ ہے۔